Sunday, November 7, 2010

کرب و بلا میں دسویں محرم کا روز تھا

حسین’حسین’حسین
حسین’حسین’حسین

یہ کون ذی وقار ہے
بلا کا شہسوار ہے
یہ بالیقیں حسین ہے
نبیۖ کا نور عین ہے
لباس ہے پھٹا ہوا
لہو میں ہے اٹا ہوا
تمام جسم نازنیں چھدا ہوا
کٹا ہوا
مگر اس ادا میں آیا فاطمہ کا لاڈلہ
لہو لہو ہوئ فرات اور سکوت چھا گیا
کچھ ایسا رن پڑا کہ کانٹے پڑ گۓ زبان پر
خدا نے اس کے خون سے لکھا یہ آسماں پر
جو گھر لٹا چکا
علی کا لاڈلہ
تو بولی کربلا
حسین مرحبا
خدا کے ساتھ ساتھ تیرا ذکر ہوگا اے غریب نینوا
اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

کرب و بلا میں دسویں محرم کا روز تھا
خنجر تلے حسین نے سجدے میں سر رکھا
رو کر پکاری زہرا اسے کون روۓ گا
دشت بلا میں ہاتف غیبی نے دی صدا

اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

وہ دل بجھے ہوۓ وہ ہوائيں تھمی ہوئ
وہ اک بہن کی بھائ پہ نظریں جمی ہوئ
ارض و سماں کی سانس تھی گویا رکی ہوئ
زینب کی زندگی کا خلاصہ یہ بن گيا

اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

دن بھر اٹھا کے لاتا رہا اقربا کی لاش
ہمشکل مصطفی کی کبھی با وفا کی لاش
قاسم سے شاہزادہ گل ٭٭٭ کی لاش
عالم کو جس نے کہنے پہ مجبور کردیا

اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

جس کا ہجوم گرد و الم سے یہ حال تھا
سینا تھا پاش پاش جگر پائمال تھا
٭٭ تشنگی کا دھواں دل نڈھال تھا
موجوں کے اضطراب سے آنے لگی صدا

اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

تجھ سا شہید کون ہے عالم میں اے حسین
تو ہے ہر ایک دیدہ پرنم میں اے حسین
روتے ہیں دو جہان تیرے غم میں اے حسین
زندہ رہے گا حلقہ ماتم میں بھی صدا

اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

حسین بے کفن
حسین بے خطا
شہید کربلا
بنا لا الہ
خدا کے ساتھ ساتھ تیرا بھی ذکر ہوگا اے غریب نینوا

اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

ہر دور میں لعینوں نے چاہا یہ بارہاں
ذکر حسین مٹ جاۓ اس جہان سے یہ
باقی رہے نہ نام زمیں پر حسین کا
لیکن نبیۖ کی بیٹی سے اللہ کہہ چکا

اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

ہے دائمی حیات تیرے نقش پا کے بعد
یہ نبیۖ یعنی تیری قضا کے بعد
طے ہوگئی یہ بات بھی کرب و بلا کے بعد
حق اور یزیدیت کا رہے گا معرکہ

اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

ہو دور کوئ علی کے بیٹے
جو بات حق ہے یونہی رہے گی
تیرے لہو کا یہ معجزہ ہے
یہ خاک خاک شفا بنے گی
انیس ہو یا دبیر کوئی
لہو میں جب تک ہے جوش باقی
خدا نے واجب کیا ہے سب پر
قلم لکھے گا زباں کہے گی

اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

کوئی عرفان ہو یا ہو مظہر
ہاں مگر ہے صدا یہی لب پر
قبل از کربلا خدا ہی خدا
بعد از کربلا حسین حسین

اب زندگی بھر یاحسین’حسین’حسین

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

چاند تاروں کی شان جمالی تو
سبز پتوں میں پھولوں کی لالی میں تو
خوشے خوشے میں تو بالی بالی میں تو
ٹہنی ٹہنی میں تو ڈالی ڈالی میں تو
بوٹے بوٹے میں گل ‘ گل میں بو ‘ بو میں تو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

سبز پوشان گلشن سر آب جو
نرگس و نسترن ‘ یاسمن ‘ ناز بو
مشک بیزان دشت ختن چارسو
طائران چمن خوش نوا ‘ خوش گلو
کہتے ہیں آب شبنم سے کرکے وضو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

یوں تو ہر اک نبی تجھ سے منسوب ہے
تیرا بھیجا ہوا ہے بہت خوب ہے
ہاں مگر ان میں اک تیرا محبوب ہے
جس کی ہر اک ادا تجھ کو مرغوب ہے
تیرا محبوب وہ اس کا محبوب تو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

دخل ممکن نہیں تیرے اسرار میں
کس کو یارا بھلا تیری سرکار میں
کس کو تاب سخن تیرے دربار میں
حسن یوسف تو بک جاۓ بازار میں
اور نفس نبیۖ کا خریدار تو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

دید کس کو میسر تری ذات کی
لاکھ موسی نے تجھ سے مناجات کی
پھر بھی تو نے نہ ان سے ملاقات کی
چھپ کے پردے میں کی جب کبھی بات کی
اور محمدۖ سے کی دوبدو گفتگو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

جبرئیل اپنے پر دیکھتے رہ گۓ
شان سیر بشر دیکھتے رہ گۓ
گرد راہ سفر دیکھتے رہ گۓ
تابہ حدّ نظر دیکھتے رہ گۓ
اور محمدۖ روانہ ہوۓ سوۓ ھو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

ہر فضیلت محمدۖ کے گھر بھیج دی
تھی جو شے خوب سے خوبتر بھیج دی
ان کے بھائ کو تیغ دوسر بھیج دی
اور ملک سے پھر اس کی خبر بھیج دی
لافتی کی صدا اب بھی ہے چار سو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

اللہ اللہ تری ذات عزّوجل
شرک پر تھے جو صدیوں سے اپنے اٹل
جن کا نعرہ احد میں تھا اعلی ہبل
دیکھ کر تیغ حیدر گرے منہ کے بل
اور کہنے لگے خوف سے حیلہ جو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

جن کو اپنے بزرگوں سے پستی ملی
علم و عرفان کی فاقہ مستی ملی
دین و ایمان کی تنگ دستی ملی
اپنے اجداد سے بت پرستی ملی
ان کی محفل میں بھی آج ہے چار سو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

یاحسین یاحسین
ۓ اسیر قافلہ دربار شام جب آیا
یزید، زینب کبری سے یوں ہوا گویا
لو آج راز وﺗﻌﺰوﻣﻦ ﺗﺸﺎء کا کھلا
کہ باوقار ہوا کون، کون ہے رسوا
او بد کلام ٹہر، بولی زینب کبری
نشے میں مست ہے آیت یہ پوری سب کو سنا
وہ ہاتھ خیر کا ہے کون مجھ کو یہ تو بتا
کہ جس سے ذلت و توخیر بانٹتا ہے خدا
وہ ہاتھ تو ہے کہ ہم اہلیبیت ہیں اس کے
ہم ہی ہیں عزت و ذلت کے بانٹنے والے

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

زینبی لہجے میں آواز علی گونج اٹھی
ظلم اور جبر کے دربار پہ بجلی سی گری
لائق حمد ہے جس نے ہمیں عزت بخشی
سورہ روم سے شہزادی نے آیت یہ پڑھی
جو برے تھے سو برا ان کا ہی انجام ہوا
جس نے قرآن کو جھٹلایا وہ ناکام ہوا

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

کیا کہا تو نے کہ حق سے ہمیں رسوائی ملی
ہم یہ کہتے ہیں ہمیں عزت و سچائ ملی
ہم کو ‍قرآن ملا رب کی شناسائ ملی
میرے پیاروں کو سناں پر بھی پذیرائ ملی
ابن مرجانہ تیرے جبّـہ و دستار تلک
کربلا آگئ اب شام کے دربار تلک

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

اے میرے بھائ کے قاتل ہوس زر کے غلام
انتہا یہ بھی ہے، میں اور کروں تجھ سے کلام
یوں مخاطب ہوں کہ دل میں ہے میرے غم کی حسام
مجھ کو دینا ہے حسین ابن علی کا پیغام
کرکے تضحیک نبیۖ تجھ کو مزا آتا ہے
انـتـقـام احـد و بـدر پہ اتراتا ہے

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

اے یزيد ستمی جاگ بہت شاد ہے تو
قید کر کے ہمیں سمجھا ہے کہ آزاد ہے تو
یہ تیری خام خیالی ہے کہ آباد ہے تو
نسل درنسل سدا کے لیے برباد ہے تو
فیصلہ رب کا ہے مہلت ہے سنبھل جانے کی
ڈھیل دی جاتی ہے ظالم کو سنبھل جانے کی

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

آج کس زعـم میں اشراف کا خوں پیتا ہے
کاٹ کے باغ رسالت کو تو خوش ہوتا ہے
چیختا پھرتا ہے تو بدر کا یہ بدلہ ہے
مجھ کو حیرت نہیں ہندہ ہی کا تو بیٹا ہے
ہوگا معلوم شـقاوت کا نتیجہ اس دن
بدلہ یہ کیا ہے، لیا جاۓ گا بدلہ اس دن

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

کردیا قتل ہميں تو نے غلط سوچا ہے
گوشت اپنا ہی چبایا ہے بدن نوچا ہے
کیا خبر تجھ کو کہ ہم لوگوں کا رتبہ کیا ہے
آل عمران میں اللہ کا یہ وعدہ ہے
شہداء صورت قرآن سدا زندہ ہیں
وہ تو وہ ان کے محبّـان سدا زندہ ہیں

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

محو حیرت ہوں کہ جنہیں رب نے سرافراز کیا
عـلـم قرآن دیا اور یـدک الـخـیر کہا
آہ ان باغ رسالت کے گلوں کو مسلا
آستینوں سے تمہاری ہے لہو ان کا بہا
پاک و پاکیزہ بناۓ تھے جو خود رب نے بدن
آج صحرا میں پڑے ہيں وہ ہی بے گورو کفن

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

آزما لے ستمی زاد ستم کے حربے
دیکھ باقی تیرے دل میں کوئ حسرت نہ رہے
رہ گیا ہو جو ستم کوئ تو وہ بھی کرلے
جیت کر ہار گئ تیری حکومت ہم سے
فکر شبیر تو پھیلے گی محمدۖ کی قسم
یہ تیرے بس میں نہیں مالک و مختار ہیں ہم

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

حافظہ نہج البلاغہ کا تھا وہ رعب و جلال
موت کی خاموشی جیسا ہوا دربار کا حال
جاگ اٹھی بیبیاں جو غم سے مسلسل تھیں نڈھال
بھرے دربار سے مظلوم خطیبہ کا سوال
کلمہ جس کا پڑھا اس کا جگر کاٹ لیا
اپنے محسن کے نواسے کا ہی سر کاٹ لیا

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

تم تھے نو لاکھ درندے وہ بہتــّر انساں
ان بہتــّر میں بھی اصغر سا تھا اک تشنہ دہاں
ایسے معصوم، قسم کھاتا ہے جن کی قرآں
ہاۓ ان پیاسوں کے حلقوم پہ خنجر تھا رواں
تم یہ کہتے ہو پَئے جنگ حسین آیا تھا
بیٹیوں بہنوں کو پھر ساتھ ميں کیوں لایا تھا

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

اے یزید آج نہ کیوں تجھ پہ فلک ٹوٹ پڑے
تو نے وہ ظلم کیے جس پہ محمدۖ روۓ
ہاۓ ناموس نبیۖ کوچہ و بازار پھرے
درودیوار سجے کوٹھوں سے پتھر برسے
شامیوں ہم پہ نیا اب یہ غضب کرتے ہو
چھوٹی زہرا کو کنیزی میں طلب کرتے ہو

یدک الخیر بھی ہم رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن سر دربار ستم

ختم تقریر ہوئ محشر خاموش اٹھا
یاعلی آپ کی بیٹی کا عجب خطبہ تھا
مردہ دربار پہ چھائ تھی خطیبہ کی صدا
بچھ گئی سرور و ریحان وہاں فرش عزا
بھائ کے سر پہ نظر زینب کبری کی پڑی
جھک گئ بالی سکینہ پہ علی کی بیٹی

مومنوں کو مبارک علی آگۓ

مومنوں کو مبارک علی آگۓ
جب علی آگۓ زندگی آگئ
زندگی بندگی روشنی آگئ
روشنی آگئ روشنی آگئ

موت تیرے محبوں کو آتی نہیں
آ بھی جاۓ تو پھر بچ کے جاتی نہیں
موت کا خطر موت سے کیا حضر
اس سے بچنا بھی کیا آگئ آگئ

غسل میت نہ کہنا میرے غسل کو
اجل ملبوس کو مت کفن نام دو
میں چلا ہوں علی سے ملاقات کو
جس کی تھی آرزو وہ گھڑی آگئ

جس کا مولا تھا میں اس کا مولا علی
جب نبی نے کہا دین کامل ہوا
مرحبا مصطفیۖ رب بھی راضی ہوا
وہ جو آنا تھی آیت وہی آگئ

جبرائيل اور قنبر پر کیا منحصر
در تیرا چھوڑ کر کوئی جاتا ہی نہيں
جو غلامی کا تیری مزہ پا گيا
راس جس کو تیری نوکری آگئ

مسلک عشق میں مانگنا عیب ہے
میں بھی خاموش ہوں وہ بھی خاموش ہیں
ان کو سب ہے خبر اس لیے چپ ہوں میں
کیا ہوا آنکھ میں گر نمی آگئ

خمس دینا مودّت کی اک شرط ہے
اور نہ دینا بھی مثل فدک ہے گناہ
حق سادات و زہرا کے مقروض سے
جب تبّـرا سنا تو ہنسی آگئ

تیری مسند پہ غیروں کو بٹھلا دیا
نائب مصطفیۖ مظہر کبریا
تو علی و وصی و علی ہی رہا
منزلت میں تیری کیا کمی آگئ

ہم کے سرشار عشق اور تولّا میں تھے
جانتے ہی نہ تھے نفرت و دشمنی
یہ تبّرا بھی واللہ کیا چیز ہے
ہم کو اغیار سے دشمنی آگئ

عشق جب تک نہ ہو شعر ہوتا نہیں
مجھ میں کب اہلیت تھی تیری مداح کی
میرے مولا میں قربان تیرے عشق کہ
س کو بھی شاعری آگئ

Syed Usman Shah Marwandi aka Hazrat Lal Shahbaz Qalander

Syed Usman Shah Marwandi aka Hazrat Lal Shahbaz Qalander
Silsila: Qalanderia Suharwardia
Date of Wisaal: 1274 A.D.
Date of Urs: 18 Sha'aban (Islamic Date)
Address:
Sehwen Shareef, Sindh, Pakistan
Description:

Hazrat Lal Shahbaz Qalandar (1177- Sehwan Sharif 1274), a sufi saint, philosopher, poet, and qalandar, was born as Syed Usman Shah Marwandi.

He belonged to the Suhrawardiyya order of sufis, and was close contemporary to Baha-ud-din Zakariya, Shaikh Fariduddin Ganjshakar, Syed Jalaluddin Bukhari Surkh-posh of Uchch, and Shah Shams Tabrizi. Some also add the name of Jalal ad-Din Muhammad Balkhi-Rumi (Mevlana Rumi).

He travelled around the Muslim world and had settled in Sehwan (Sindh, Pakistan) and was buried there. He preached religious tolerance among Muslims and Hindus. Thousands of pilgrims visit his shrine every year, especially at the occasion of his Urs.

Life

Shahbaz Qalandar (Shaikh Usman Marwandi) was born in Marwand to a dervish, Syed Ibrahim Kabiruddin whose ancestors migrated from Iraq and settled down in Mashhad, a center of learning and civilization, before migrating again to Marwand.

His dedication to the knowledge of various religious disciplines enabled him to eventually become a profound scholar. During his lifetime, he witnessed the Ghaznavid and Ghurids rules in South Asia. He became fluent in many languages including Persian, Turkish, Arabic, Sindhi and Sanskrit. His mysticism attracted people from all religions. He was titled Lal (red) for his usual red attire, Shahbaz due to his noble and divine spirit, and 'Qalandar' for his sufism and saintly attitude. Hindus regarded him as the incarnation of Bhrithari. Qalandar Lal Shahbaz lived a celibate life and, did not marry.

Evidence shows that he was active in Sindh before 1196, when he met Pir Haji Ismail Panhwar of Pat; it is believed he entered Sehwan in 1251.

He established his Khanqah in Sehwan and started teaching in Fuqhai Islam Madarrsah; during this period he wrote his treatises Mizna-e-Sart, Kism-e-Doyum, Aqd and Zubdah.

In poetry and prose

A Qawwali by Abida Parveen and many other singers of sufi songs, 'Lal Meri Pat Rakhiyo ...' is in honour of Shahbaz Qalandar, as is the one sung by Nusrat Fateh Ali Khan named Mast Qalandar.

This famous mystic often quoted the teachings of Maulana Jalal ad-Din Rumi. A book detailing his life is called "Solomon's Ring" by Gul Hasan.

Boo Ali Shah Qalandar's famous Persian verses showing his love and honour for Hazrat Ali are engraved on his shrine:

Haiderium Qalandram Mastam
Banda e Murtaza Ali Hastam
Peshwa e tamam Rindanam
Ke Sag e Koo e Sher e Yazdanam!

Translation:
I am Haideri (relating to Haider, a second name for Ali ibn Abi Talib), Qalandar and Mast (intoxicated with inspiration)
I am a slave of Ali Murtaza
I am leader of all saints
Because I am a dog of the lane of "Allah's Lion" (referring to Ali)

Legends and Stories

On his way from Baluchistan to Sindh, he also stayed in present day Karachi's Manghopir area for muraqba (meditation), and it is said that Manghopir's natural warm fountain is a miracle of Lal Shahbaz Qalandar. That warm fountain started to flow from beneath the hill, on which Lal Shahbaz sat for muraqba (meditation). After passing hundreds of years, that warm fountain is still flowing continuously and is said to have miraculous healing power especially for asthma patients.

In Multan, Lal Shahbaz met Bahauddin Zachariah Multani of the Suhurwardiya order, Baba Farid Ganjshakar of Chishtiya order, and Makhdoom Jahanian Surkh Bukhari. The attachment was so cordial and spiritual that their friendship became legendary. They were known as Chahar Yar (Persian = four friends). According to some historians, the four friends visited various parts of Sindh and Punjab, in present day Pakistan.

Almost all the saints of Sindh including Shah Abdul Latif Bhitai, Makhdoom Bilawal, Sachal Sarmast and Qadir Bukhsh Bedal were devout followers of Lal Shahbaz Qalandar.

It is also believed that he turned into a falcon to pick up his friend Shaikh Farid Shakar Ganj from the gallows. The legend goes that the incumbent fakirs in Sewhan sent him a bowl of milk filled to the brim indicating that there was no room for anything more. But surprisingly, he returned the bowl with a beautiful flower floating on the top. This legend spread far and wide by the time of his death in 1274, after living a good span for 97 years.

Shrine

The shrine around his tomb, built in 1356, gives a dazzling look with its Sindhi kashi tiles, mirror work and two gold-plated doors - one donated by the late Shah of Iran, the other by the late Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto. The inner sanctum is about 100 yards square with the silver canopied grave in the middle. On one side of the marble floor is a row of about 12 inch high folding wooden stands on which are set copies of Quran for devotees to read. On the other side, beside a bundle of burning agarbattis (joss sticks), are rows of diyas (small oil lamps) lighted by Hindu devotees.

Urs

His annual Urs (death anniversary celebration) is held on the 18 Sha'aban - the eighth month of the Muslim lunar calendar. Thousands of devotees flock to the tomb while every Thursday their number stands multiplied especially at the time of his 'Urs' being a carnival as well a religious festival and celebrated every year. Sehwan springs to life and becomes the focal point of more than half a million pilgrims from all over Pakistan. On each morning of the three day feast, the narrow lanes of Sewhan are packed to capacity as thousands and thousands of pilgrims, fakirs and devotees make their way to the shrine to commune with the saint, offer their tributes and make a wish. Most of the people present garlands and a green chadar (a cloth used to cover a tomb) with Qur'anic inscriptions in silver or gold threads. Humming of verses, singing and dancing in praise of the saint continues till late at night. A devotional dance known as 'dhamal', being a frenzied and ecstatic swirl of the head and body, is a special ritual that is performed at the rhythmic beat of the [dhol] (a big barrel-shaped drum), some of them being of giant size and placed in the courtyard of the shrine. Bells, gongs, cymbals and horns make a thunderous din, and the dervishes, clad in long robes, beads, bracelets and colored head-bands whirl faster and faster in a hypnotic trance, until with a final deafening scream they run wildly through the doors of the shrine to the courtyard beyond.